Gazal in urdu


نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے
سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے
وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائی یہ دائمی ہے
کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ، نئی روشنی ہے
جفاؤں پہ گھُٹ گھُٹ کے چُپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے
مرے راہبر! مجھ کو گمراہ کر دے
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے
خمارِ بلا نوش! تُو اور توبہ!
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے









کیسے چھوڑیں اُسے تنہائی پر
حرف آتا ہے مسیحائی پر
اُس کی شہرت بھی تو پھیلی ہر سُو
پیار آنے لگا رُسوائی پر
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں ، جاناں !
تیری تصویر کی زیبائی پر
رشک آیا ہے بہت حُسن کو بھی
قامتِ عشق کی رعنائی پر
سطح سے دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر
ذکر آئے گا جہاں بھونروں کا
بات ہو گی مرے ہرجائی پر
خود کو خوشبو کے حوالے کر دیں
پُھول کی طرز پذیرائی پر



مری راتوں کی راحت دن کا اطمینان لے جانا
تمہارے کام آجائے گا‘ یہ سامان لے جانا
تمہارے بعد کیا رکھنا اَنا سے واسطہ کوئی؟
تم اپنے ساتھ میرا عمر بھر کا مان لے جانا
شکستہ کے کچھ ریزے پڑے ہیں فرش پر‘چن لو
اگر تم جوڑ سکتے ہو تو یہ گلدان لے جانا
ادھر الماریوں میں چند اوراق پریشاں ہیں
مرے یہ باقیماندہ خواب میری جان لے جانا
تمہیں ایسے تو خالی ہات رخصت کرنہیں سکتے
پرانی دوستی ہے اس کی کچھ پہچان لے جانا
ارادہ کر لیا ہے تم نے گر سچ مچ بچھڑنے کا!
تو پھر اپنے یہ سارے وعدہ وپیمان لے جانا
اگر تھوڑی بہت ہے شاعری سے اُن کو دلچسپی
تو ان ے سامنے تم میرایہ دیوان لے جانا



کوئی رُقعہ نہ لفافے میں کلی چھوڑ گیا
بس اچانک وہ خموشی سے گلی چھوڑ گیا
جب دیا ہی نہ رہا‘خوف ہو کیا معنی؟
خالی کمرے کی وہ کھڑکی بھی کھلی چھوڑ گیا
گونجتے رہتے ہیں سناٹے اکیلے گھر میں
دردیوار کو وہ ایسا دُکھی چھوڑ گیا
بس اُسی حال کی تصویر بنا بیٹھا ہوں
مجھ کو جس میں وہ میرا سخی چھوڑ گیا
پہلے ہی درہم دینار محبت کم تھے
اک تہی دست کو وہ اور تہی چھوڑ گیا
کہیں تنہائی کے صحرا میں نہ پیاسا مر جاؤں
جانے والا مری آنکھوں میں نمی چھوڑ گیا




یہ ٹھیک ہے کہ بہت وحشتیں بھی ٹھیک نہیں
مگر ہماری ذرا عادتیں بھی ٹھیک نہیں
اگر ملو تو کھلے دل کے ساتھ ہم سے ملو
کہ رسمی رسمی سی یہ چاہتیں بھی ٹھیک نہیں
تعلقات میں گہرائیاں تو اچھی ہیں
کسی سے اتنی مگر قربتیں بھی ٹھیک نہیں
دل و دماغ سے گھائل ہیں تیرے ہجر نصیب
شکستہ در بھی ہیں ان کی چھتیں بھی ٹھیک نہیں
تم اعتبار پریشان بھی ان دنوں ہو بہت
دکھائی پڑتا ہے ،کچھ صحبتیں بھی ٹھیک نہیں
قلم اٹھا کے چلو حال دل ہی لکھ دالو
کہ رات دن کی بہت فرتیںبھی ٹھیک نہیں




پھول تھے رنگ تھے ‘لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خرد مند بنے پھرتے تھے ‘ماشاء اللہ!
بس ترے شہر میں اک صاحب وحشت ہم تھے
نام بخشا ہے تجھے کس کے دفورِ غم نے
گر کوئی تھا تو ترے مجرم شہرت ہم تھے
رَت میں تری یاد آئی تو احساس ہوا
اک زمانے میں تری نیند کی راحت ہم تھے
اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو
وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے
دُھوپ کے دشت میں کتنا وہ ہمیں ڈھونڈتا تھا
اعتبار اس کے لےئے اَبر کی صورت ہم تھے



ناحق وہ آزردہ ہو گا‘ اسے رُلانا ٹھیک نہیں
فون کے آگے چپ بیٹھا‘میں کتنی دیر سے سوچ رہاہوں
ابھی وہ تھک کر سویا ہوگا ‘ سے جگانا ٹھیک نہیں
اک روشن کھڑکی کہتی ہے دیکھو‘آگے دریا ہے
جاگ رہے ہیں سب گھروالے لان میں آنا ٹھیک نہیں
اس کے سپنے ٹوٹ گئے ‘ تو تم کو کیا نیند آئے گی
گڑیا جیسی لڑکی کو ‘آس دلانا ٹھیک نہیں
جتنا سفر گذرا ہے اب تک اب اس کی تکمیل کرو
تم اپنے گھر میں اپنے گھر آگے جانا ٹھیک نہیں
گھر والے ناراض تو ہوں گے اتنی دیر سے آنے پر
چاند کے ساتھ سفر میں تھے تم‘یہ تو بہانہ ٹھیک نہیں



اک پرائے شخص کی تصویر لے کر کیا کریں
ہم زمیں زادے‘ستاروں سے ہمیں کیا واسطہ؟
دل میں ناحق خواہش تسخیر لے کر کیا کریں
عالموں سے زائچے بنوائیں کس اُمید پر
خواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لے کر کیا کریں
اعتبارِ حرف کافی ہے تسلی کیلے
پکے کاغذ پر کوئی تحریر لے کر کیا کریں
اپنا اک اسلوب ہے ‘اچھا برا جیسا بھی ہے
لہجہ غالب‘ زبان میر لے گر کیا کریں
شمع اپنی ہی بھلی لگتی ہے اپنے طاق پر
مانگے تانگے کی کوئی تنویر لے کر کیا کریں







وہ جسے بھول نہیں پائیں گے
ایسا قصہ جناب لکھیں گے
خوشبو بن کر جو روح میں اترے
وہ مہکتے گلاب لکھیں گے
ہم ان کی خوابیدہ نگاہوں کو
ایک دلکش خواب لکھیں گے
نامہ بر کچھ گھڑی ٹھہر جاؤ
ہم سوال و جواب لکھیں گے
میرے اعداء مجھے بھلا کب تک
یوں ہی خانہ خراب لکھیں گے
اپنے حصے کے میرے حصے میں
اور کتنے ثواب لکھیں گے
وہ جو لکھنے سے رہ گئے عظمٰی
ان خطوں کے جواب لکھیں گے 



اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب!
میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے

برہم نہ ہو کم فہمی کوتہ نظراں پر ۔۔۔۔۔!
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گِلا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تُو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر!
میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر
پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اِس رُت میں کہاں پھول کھلیں گے دلِ ناداں
زخموں کو ہی وابستہء زنجیرِ صبا کر
اِک رُوح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تُو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر
اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں *محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر







سنو! تم دیر مت کرنا
کوئی آنسو، کوئی آنکھیں
کوئی چہرہ، کوئی لہجہ
کوئی آواز تم کو جس قدر روکے
مگر تم دیر مت کرنا
کسی کی یاد کی آنکھیں
تمہیں ہر لمحہ تکتی ہیں
کسی کی آنکھ میں جاناں
تمہاری یاد کی بارش ہر اک لمحہ برستی ہے
تمہیں بس سوچتے رہنا کسی کا کام رہتا ہے
تمہاری یاد کا موسم تو صبح و شام رہتا ہے
کسی کے ہونٹ پر ہر دم تمہارا نام رہتا ہے
سنو! تم دیر مت کرنا
کوئی آنسو کوئی آنکھیں، کوئی چہرہ،کوئی لہجہ
کوئی آواز تم کو جس قدر روکے
مگر تم دیر مت کرنا
سنو! تم دیر مت کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔







یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
لبِ جو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی
کچھ خبر لے کے تیری محفل سے
دور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی
نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق
دل میں یونہی سی ہے طلب کوئی
یاد آتی ہیں دور کی باتیں
پیار سے دیکھتا ہے جب کوئی
چوٹ کھائی ہے بارہا لیکن
آج تو درد ہے عجب کوئی
جن کو مٹنا تھا مٹ چکے ناصر







اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا
وہ جو اسکی صبح عروج تھی وہی میرا وقت زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا اسے روکنا بھی محال تھا
کہاں‌جاو کے مجھے چھوڑ کے میں‌یہ پوچھ پوچھ کر تھک گیا
وہ جواب بھی نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ جو اسکے سامنے آگیا وہی روشنی میں‌نہا گیا
عجب اسکا ہیبت حسن تھا عجب اسکا رنگ جمال تھا
دم واپسی یہ کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بجھ گیا جو اپنی مثال آپ تھا
وہ ملا تو صدیوں‌بعد بھی میرے لب پر کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں‌کمال تھا
مجھے سے ملکر وہ رو لیا مجھے فقط وہ اتنا کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں‌زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا







دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
حاِل دل ہم بھی ُسناتے لیکن
جب وہ ُرخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہ ُگل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا







برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نا مرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ يہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہيں تھے روئے
کچھ زہر ميں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر يوں ہوا کے ساون آنکھوں ميں آ بسے تھے
پھر يوں ہوا کہ جيسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہيں تو يارو ہم کو خبر نہيں تھی
بن جائے گا قيامت اک واقع ذرا سا
تيور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا ليکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دريا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہيں تھا پياسا
ہم نے بھی اُس کو ديکھا کل شام اتفاقا
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا



دل نے تیرے بارے میں پوچھا تو بہت رویا
وہ شخص جو پتھر تھا ٹوٹا تو بہت رویا
یہ دل کہ جدائی کے عنوان پہ برسوں سے
چپ تھا تو بہت چپ تھا رویا تو بہت رویا
آسان تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
جو شخص نہ رویا تھا تپی ہوئی راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
اک حرف تسلی کا اک حرف محبت کا
خود اپنے لئے اس نے لکھا تو بہت رویا
پہلے بھی شکستوں پر کھائی تھی شکست اس نے
لیکن وہ تیرے ہاتھوں ہارا تو بہت رویا
جو عہد نبھانے کی دیتا تھا دعا اس نے
کل شام مجھے تنہا دیکھا تو بہت رویا







کبھی جو مجھ کو نلاش کرنا
تو چاند راتوں کی چاندنی میں
گل چمن سے سوال کرنا
اداس کیوں ہو
کیوں اوس قطروں میں اپنے آنسو
چھپا رہے ہو
حسین موسم میں کس کی یادوں میں
اپنے دل کو جلا رہے ہو
گل چمن یہ سوال سن کر
تمہاری آمد کا حال سن کر
کہے گا تم جس کو کھوجتے ہو
وہ ان بہاروں کی ساری خوشبو
چرا کے اب اک نئے چمن میں
مہک رہا ہے
اداس کر کے یہاں پہ ہم کو
کسی اور چمن میں چہک رہا ہے
گل چمن کی یہ بات سن کر
تمہیں لگے گا میں بے وفا ہوں
اداس کلیوں کو چھوڑ کر میں
نئی بہاروں کو ڈھونڈتا ہوں
مگر حقیقت میں اس چمن کا
تمام پھولوں کی خواہشوں کا
اور ان کی ناکام کاوشوں کا
حسین موسم کی بارشوں کا
نہ میرے دل پر اثر ہوا تھا
نہ میرے دل پر اثر ہوا ہے
میں آج بھی اک نئے چمن میں
پرانے قصے سنا رہا ہوں
جو میری چاہت کا دیوتا تھا
میں آج بھی اس کو پوجتا ہوں
یقیں نہیں تو پلٹ کے دیکھو
وہیں کھڑا تھا، وہیں کھڑا ہوں